بنی اسرائیل آیت 36

تنقید کی اقسام — ایک فکری و شرعی جائزہ اللہ تعالی کا حکم ہے وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۚ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُـوْلًا (بنی اسرائیل:آیت 36) اور جس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ، بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی تنقید انسانی معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے جو نہ صرف فکری ترقی کا محرک بنتا ہے بلکہ علمی اور اخلاقی اقدار کو جلا بخشنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے دور میں تنقید کا مفہوم مسخ ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ اس اہم عمل کو صرف مخالفت یا عیب جوئی کا نام سمجھتے ہیں، جب کہ درحقیقت تنقید ایک گہرا علمی، فکری اور اخلاقی عمل ہے، جس کی بنیاد انصاف، دیانت اور علمی شعور پر ہوتی ہے۔ علمی روایت میں تنقید کی دو بنیادی اقسام تسلیم کی جاتی ہیں علمی و معروضی تنقید یہ تنقید اس وقت وجود میں آتی ہے جب ناقد کسی فرد، تحریر یا موقف کو بغور سمجھتا ہے، اس کے اصل سیاق و سباق کو مدنظر رکھتا ہے، اور پھر اس پر اپنے دلائل اور شواہد کے ساتھ رائے دیتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں منصفانہ تجزیہ، دیانتداری اور علمی گہرائی ...