بنی اسرائیل آیت 36
تنقید کی اقسام — ایک فکری و شرعی جائزہ
اللہ تعالی کا حکم ہے
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۚ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُـوْلًا (بنی
اسرائیل:آیت 36)
اور جس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ، بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی
تنقید انسانی معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے جو نہ صرف فکری ترقی کا محرک بنتا ہے بلکہ علمی اور اخلاقی اقدار کو جلا بخشنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے دور میں تنقید کا مفہوم مسخ ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ اس اہم عمل کو صرف مخالفت یا عیب جوئی کا نام سمجھتے ہیں، جب کہ درحقیقت تنقید ایک گہرا علمی، فکری اور اخلاقی عمل ہے، جس کی بنیاد انصاف، دیانت اور علمی شعور پر ہوتی ہے۔
علمی روایت میں تنقید کی دو بنیادی اقسام تسلیم کی جاتی ہیں
علمی و معروضی تنقید
یہ تنقید اس وقت وجود میں آتی ہے جب ناقد کسی فرد، تحریر یا موقف کو بغور سمجھتا ہے، اس کے اصل سیاق و سباق کو مدنظر رکھتا ہے، اور پھر اس پر اپنے دلائل اور شواہد کے ساتھ رائے دیتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں منصفانہ تجزیہ، دیانتداری اور علمی گہرائی شامل ہوتی ہے۔
امام شافعیؒ کا قول ہے:
(میری رائے درست ہے مگر اس میں غلطی کا احتمال ہے، اور دوسرے کی رائے غلط ہے مگر اس میں درست ہونے کا احتمال ہے۔)
یہ قول علمی تنقید کے اصول کو بہترین انداز میں واضح کرتا ہے — تنقید انصاف اور فہم پر مبنی ہونی چاہیے، نہ کہ انا اور تعصب پر۔
غیر علمی و خود ساختہ تنقید
یہ وہ تنقید ہے جس میں تنقید کرنے والا مخاطَب کی بات کو غلط یا ناقص سمجھنے کے بجائے، اس میں سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالتا ہے اور اسی خود ساختہ مطلب پر سخت تنقید کرتا ہے۔ ایسا رویہ علمی بددیانتی اور فکری بد اخلاقی کی علامت ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"اس بات کے پیچھے نہ چلو جس کا تمہیں علم نہیں۔"
یہ آیت اس اصول کی واضح رہنمائی کرتی ہے کہ تنقید بھی علم اور فہم کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ گمان اور بدگمانی پر۔
موجودہ زمانے میں تنقید کا بگاڑ
آج کے دور میں سوشل میڈیا اور فوری تبصرے کے رجحان نے تنقید کو ایک ہتھیار بنا دیا ہے۔ لوگ محض ذاتی پسند، سیاسی وابستگی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اصل بات کو سمجھے ہوں۔ انہیں لگتا ہے کہ "تنقید میرا حق ہے" — لیکن حقیقت یہ ہے کہ حق کے ساتھ ذمہ داری بھی لازم ہوتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں تنقید کا اصول یہ ہے کہ:
"لوگوں سے بھلی بات کہو۔"
یعنی اگر کسی پر اعتراض بھی ہو تو نرمی، اخلاق اور دیانت کے ساتھ کیا جائے۔
علمی تنقید: فکری ترقی کا زینہ
علمی تنقید ناقد اور مخاطب دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ اس سے:
ناقد کو دوبارہ مطالعہ کا موقع ملتا ہے۔
زیر تنقید فرد کو اپنی بات پر ازسر نو غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔
سامع یا قاری کو دونوں زاویوں سے بات کو دیکھنے کا موقع میسر آتا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے:
"کسی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے اُس کے مقام، علم اور نیت کو پرکھو، شاید وہ تم سے بہتر ہو۔"
غیر علمی تنقید: فتنہ اور فساد کا ذریعہ
جب تنقید ذاتی حملے، تہمت، یا جھوٹ پر مبنی ہو، تو یہ نہ صرف اخلاقی جرم بن جاتی ہے بلکہ شرعی اعتبار سے بھی ناجائز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"
غیر علمی تنقید فتنہ انگیزی اور دل آزاری کا سبب بنتی ہے اور معاشرے میں بد اعتمادی پیدا کرتی ہے۔
تنقید ایک اہم علمی اور فکری عمل ہے، لیکن اس کی درستگی، نیت، اسلوب اور الفاظ کی صحت پر منحصر ہے۔ تنقید وہی معتبر ہے جو انصاف، علم، فہم اور خیرخواہی پر مبنی ہو۔ جبکہ وہ تنقید جو تعصب، خود ساختہ تاویلات اور کردار کشی پر مبنی ہو، وہ نہ صرف علمی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ اسلامی اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علمی تنقید کو فروغ دیں اور غیر علمی و تخریبی تنقید سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، تاکہ ایک مثبت، فکری اور بااخلاق معاشرہ وجود میں آ سکے۔
Comments
Post a Comment